تبدیلی جب بھی آتی ہے موسم کی اداؤں میں

تبدیلی جب بھی آتی ہے موسم کی اداؤں میں
کسی کا یوں بدل جانا بہت ہی یاد آتا ہے
تبدیلی جب بھی آتی ہے موسم کی اداؤں میں
کسی کا یوں بدل جانا بہت ہی یاد آتا ہے
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے
ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرا
لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے
ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا