اب اپنی یادوں سے ہمیں رہائی دے

اب اپنی یادوں سے ہمیں رہائی دے
ہمیں ہر جگہ نہ دکھائی دے
یاد کے عنوان پر مشہور شعرا کی شاعری کا مجموعہ پڑھیے
چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں
تو جیسے مرے پاس ہے اور محوِ سخن ہے
محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تیری یادیں
ان لمحوں کی یادیں سنبھال کے رکھنا
ہم یاد تو آئیں گے لیکن لوٹ کے نہیں
تیرے دیار قربت کا وہ زمانہ یاد آتا ہے
میں رو پڑتا ہوں جب گزرا زمانہ یاد آتا ہے
رہ رہ کر یاد آتے ہیں وہ ناز و انداز تیرے
وہ تیرا دور سے دیکھ کر مسکرانا یاد آتا ہے
تیرے رخِ مہتاب کو دیکھنے کے لیے کھڑے رہنا
وہ تیرا پاس آنا آنچل یوں ہی گزر جانا یاد آتا ہے
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے
ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے