کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
وابستہ ہو گئیں تھی کچھ امیدیں آپ سے
امیدوں کا چراغ بھجانے کا شکریہ
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
آج تک ہے دل کو اُس کے لوٹ آنے کی ۱مید
آج تک ٹھہر ی ہوئی ہے زندگی اپنی جگہ