نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
میں نہ جگنو ہوں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں
روشنی والے میرے نام سے جلتے کیوں ہیں
جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں، آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے
ساری بستی قدموں میں ہے، یہ بھی اک فنکاری ہے
ورنہ بدن کو چھوڑ کے اپنا جو کچھ ہے سرکاری ہے
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو