سب ستم، سب جفائیں بھلا دی میں نے

سب ستم، سب جفائیں بھلا دی میں نے
ان کے بے وفائی کی خود کو سزا دی میں نے
اس گاؤں کے مسافر تم نے دیکھی ہے وہ صورت
جس پہ اپنی زندگی لٹا دی میں نے
سب ستم، سب جفائیں بھلا دی میں نے
ان کے بے وفائی کی خود کو سزا دی میں نے
اس گاؤں کے مسافر تم نے دیکھی ہے وہ صورت
جس پہ اپنی زندگی لٹا دی میں نے
مضر صحت، محبت سے مضطرب ہی اچھے
ہو ہی جائیں گے کسی اور میں سے دو چار بچے
کیا کرنے کسی سے وعدے جھوٹے یا سچے
ارادے اُن کے نیک تھے، یا تھے کچے پکے
عشق کے دھاگوں میں پرو کے مجھے
ہنسنے کا کہہ گیا ہے وہ رو کے مجھے
بے چین صورت اس کی آ جاتی ہے
آتا نہیں چین اب سو کے مجھے
نہ سہی اور پر اتنی تو عنایت کرتے
اپنے مہمان کو ہنستے ہوئے رخصت کرتے
مبہم الفاظ میں ہم نے تجھے کیا لکھا ہے
تو کبھی روبرو آتا تو وضاحت کرتے
محبت اگر لفظی ہے ، یا نقل ہے
ایسا مت کیجئے، نفسیاتی قتل ہے
قدرت ہو، تو اس کا ایک حل ہے
مزید پڑھیں […]
مجھ سے بچھڑ کر کہاں وہ بدلا ہو گا
اتنا بڑا دھوکہ دے کر خود کہاں وہ سنبھلا ہو گا
ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی
ہم جیسی چاہتے تھے وہ قُربت نہیں مِلی
ملنے کو زندگی میں کئی ہمسفر ملے
لیکن طبیعتوں سے طبیعت نہیں ملی
مزید پڑھیں […]
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی