عشق کے دھاگوں میں پرو کے مجھے
عشق کے دھاگوں میں پرو کے مجھے
ہنسنے کا کہہ گیا ہے وہ رو کے مجھے
بے چین صورت اس کی آ جاتی ہے
آتا نہیں چین اب سو کے مجھے
عشق کے دھاگوں میں پرو کے مجھے
ہنسنے کا کہہ گیا ہے وہ رو کے مجھے
بے چین صورت اس کی آ جاتی ہے
آتا نہیں چین اب سو کے مجھے
بن گئی ہے دِل کے مجبوری ملاقاتیں
ہو گئی ہے اب تو ضروری ملاقاتیں
آنكھوں سے کچھ کہہ کے بچھڑ جانا
جان لے لیں گی یہ ادھوری ملاقاتیں
بچھڑ گئے تو پِھر ملنے کے آس کیا رکھیں
مرجھائے ہوئے پھول کھلنے کے آس کیا رکھیں
لگائے ہیں جو خود اپنے ہاتھ سے انجم
ان زخموں کے سلنے کی آس کیا رکھیں
جان کی بھیک مانگنے کی لیے بھی
کبھی ہاتھ ہَم نے پھیلایا ہی نہیں
انجم مجھ کو میرے واعظ نے
سسک کر جینا سکھایا ہی نہیں
نظر ملا کے بھول گئے ہو
اپنا بنا کے بھول گئے ہو
میری بےبسی بھی تو دیکھو
گھر جلا کے بھول گئے ہو
سراغِ منزل لیے راہِ بے نشاں کی تلاش میں
کارواں بھٹک گیا میرِ کارواں کی تلاش میں
امیرِ شہر ہے یہاں میمن ہے کوئی مہر ہے
بے نام ہوئے لوگ فخرو گمان کی تلاش میں
حَسِین خواب دکھا کے بھول جاتے ہیں
لوگ اپنا بنا کے بھول جاتے ہیں
جدائی کا نام سن كے رونے والے
کچھ دور جا كے بھول جاتے ہیں
تم ہو ضدی میں ہوں دیوانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
تم ہو شمع میں ہوں پروانہ
جیت کس کی ہوتی ہے