ساقی نہ پلا ، بھر بھر كے

ساقی نہ پلا ، بھر بھر كے
مجھے مے سے سروکار نہیں

آتا ہوں پینے ، نگاہوں سے
رند ہوں ، بادہ خار نہیں

ہر بات میں فاعدے کی بات کرتے ہو
یہ عشق ہے میری جان ، کاروبار نہیں

میں جان بوجھ كے تیری باتوں میں آجاتا ہوں
جتنا سمجھتے ہو ، تم اتنے ہوشیار نہیں

تیری چاہ میں تیرے دام بک گئے ورنہ
اتنے ارزاں تو میرے گیسو تابدار نہیں

وہ دن گئے جب دِل میں بسا کرتے تھے
اب میری آنکھوں کو ، تیرا انتظار نہیں

کیوں خود کو برباد کر رہے ہو ساحل
تم جانتے ہو ، كے وہ وفا دار نہیں

ہزاروں کی بھیڑ میں تنہا ہیں

ہزاروں کی بھیڑ میں تنہا ہیں
ایک تیری ملاقات کے طلبگار ہیں

سمجھے نہ تو زمانے کے جیسا مطلبی
اسی لیے تھوڑا محتاط ہیں

عشق میں تیرے ڈوب گئے اتنا
کہ خود سے بھی بیزار ہیں

کسی کا بولنا بھی نہیں لگتا اچھا
اک تیری آواز کے طلبگار ہیں

شفق

موج دریا بھی خاموش تھی

موج دریا بھی خاموش تھی
فضا بھی اداس تھی
سکوت تھا ہر طرف پیاس تھی
ان سب کی وجہ ایک ہی بات تھی
وہ رات جدائی کی رات تھی
میں بضد تھی اسے روکنے پر
وہ بھی اڑا رہا جانے پر
ختم کیسے ہوتی بات
اس کو پیاری اس کی انا تھی

شفق