اپنی انا کے واسطے کیا کیا نہیں کئے
رونا تھا جس مقام پہ ہم مسکرا دئیے
اس طرح بھی حیات بسر اپنی ہو گئی
محفل میں جا کے ہنس لیے گھر آ کے رو لئے
سر پر ہے آسمان نہ پیروں تلے زمیں
اس حال میں بتائیے کب تک کوئی جئے
مجبوریوں کے پاؤں کی زنجیر تم ہوئے
ہم بھی تمہاری یاد میں پتھر کے ہو لئے
سارے بدن پہ پیاس کا بادل برس پڑا
آنکھوں سے نکلے آب کو کب تک کوئی پئے
گم ہو گئے نگاہ سے منزل کے سب نشاں
اندھی ہوا سے بجھ گئے امید کے دئیے
حیرت زدہ ہیں لوگ بہت مجھ کو دیکھ کر
میں آ گیا ہوں بھیڑ میں احساس کو لئے
سایہ دار دھوپ – صفحہ ۹۰