ذخمی ہے دل مگر دوا کی طلب نہیں

teri yaad

ذخمی ہے دل مگر دوا کی طلب نہیں
خوشی گوارا نہیں ہاں کسی سبب نہیں

ملیے مگر ذرا کترا کر ملیں حضور
اب منکرِوفا ہوں وہی باآدب نہیں

مرتے ہیں روز کئی لوگ راہِ وفا میں یوں
اُنکی قبر پر کوئی نام نہیں کتبہ نصب نہیں

میں تھا اور تھی ساتھ تیری یاد مسلسل
کہہ دوں کہ تو ہی ساتھ تھا تو یہ عجب نہیں

ہم کلامی کو کہتے ہیں کبیرہ گناہ
اُنکی نظر جو ڈھائے ستم وہ غضب نہیں

سہہ لوں گا نعمانؔ جیتنے بھی وار ہوں جسم پر
مگر آنکھ سے نہیں دل کی ضرب نہیں

تصویر آئی ذھن میں جب اس جناب کی

تصویر آئی ذھن میں جب اس جناب کی
راتوں کو جاگ جاگ کے نیندیں خراب کی

ان نیم باز آنکھوں کی مستی میں مست ہوں
مجھ کو نہیں ہے کوئی ضرورت شراب کی

بے چین دل کو میرے سکوں اے کس طرح
اف وہ جمال یار، یہ عمریں شباب کی

میری محبتوں کا نہ ان پہ اثر ہوا
میں راہ دیکھتا رہا انکے جواب کی

یہ فلسفہ ہے میری محبت کا دوستوں
جس سے بھی کی خدا کی قسم بے حساب کی

دیدار حسن، جلوہ، تبسم، جمال یار
یہ سب دواییاں ہے دل اضطراب کی

قتل و فساد،خون کے چھینٹیں ہے ہر طرف
یہ کسنے میرے ہند کی حالت خراب کی

پھر سے آزاد ھویگا ہندوستان میرا
آواز اٹھ رہی ہے سنو انقلاب کی

طالب لکھا ہے میں نے جو لفظوں کی شکل میں
یہ داستان عشق ہے میری کتاب کی

ہر رات کرتے ہیں ستارے، مجھ سے بات نئی

dil torain urdu

ہر رات کرتے ہیں ستارے، مجھ سے بات نئی
ہوتی ہے بحث اُن سے، ہر رات نئی

آنکھ سے گرتے ہیں ہر رنگ کے موتی
ہر بار کرتا ہوں خیرات نئی

ارد گرد ہیں موجود سبہی دل ٹوٹے
بنا رہا ہوں میں اک ذات نئی

کہتے ہیں عاشقی چھوڑ چل دل توڑیں
سُنو پھر آئیں گی شکایات نئی

مجھے مقدس ہیں اپنی روایات پُرانی
تم رکھو پاس اپنی روایات نئی

میرے ہم دم مل، کہ آئے ہیں موسم سُہانے
مل کہ آئیں نئے بادل، کریں برسات نئی

چھوڑ کر تجھے جا بسوں دُور کسی بستی میں
تجھ سے تھک گیا ہوں عشق، کرنی ہے شروعات نئی

جو کی ہیں وہی بہت ہیں، نعمان آخر مرنے تک
بس کر اب اور نہ کرنا، مجھ پر عنایات نئی

نعمان اعجاز

میرے اشک كے مقابل نہیں ، تیری آنکھیں

آب خنک میں ڈوب گئے شمس و قمر
میرے اشک كے مقابل نہیں ، تیری آنکھیں

جھیل نما کیا ، سمندر نما ھوں گی
میرے دِل سے نہیں گہری ، تیری آنکھیں

خوبصورتی نظارے میں نہیں ، نظر میں ہوتی ہے
میری آنکھوں کو لگتی ہیں خوبصورت ، تیری آنکھیں

لبوں سے کہہ رہی ہو نہ ملا کرو
اور کچھ اور کہہ رہی ہیں ، تیری آنکھیں

ساگر و پیمانے سے ،واعظ نے دوستی کرلی
بن گئے رند صوفی ، جب سے دیکھیں ، تیری آنکھیں

یونہی بدنام ہیں میری گستاخ نگاہیں
صبح سے شام تک کتنوں کو تکتی ہیں ، تیری آنکھیں

او طوفانوں سے لڑنے والے سکندر
کیوں ساحل پہ ڈوب گئی ، تیری آنکھیں

ہم تو تم سے وفا کرتے رہے

ہم تو تم سے وفا کرتے رہے
مگر تم تھے جو ہم سے دغا کرتے رہے
ہم کو تمھارے سے کوئی رنجش تھی نہ کوئی غم تھا
مگر تم تھے جو ہم سے گلا کرتے رہے
ہم نے تم کو سمجھایا, بہت کچھ بتایا
مگر تم تھے جو ہم پر ابہام کرتے رہے
بے لگام کرتے رہے
بہت کاوشيں کیں تم کو راضی کرنے کی ہم نے
مگر تم تھے جو بار بار نا کرتے رہے
بےپناہ کرتے رہیں
(شہریار احمد)

انکی تیکھ نگاہیں دیکھ

انکی تیکھ نگاہیں دیکھ ، میں نے کیا سَر جھکا دیا
خدا کو خدا سمجھ بیٹھے ، مشرک مجھے بنا دیا

اب کہتے ہیں مجھ کو سجدہ کرو ، پر انکی کوئی خطا نہیں
تھی میرے عشق کی انتہا ، عرش پر انہیں بٹھا دیا

کس نے کہا تھا تمہیں ، بے حجاب ملنے آیا کرو
پہلے تو صرف عاشق تھا ، دیوانا مجھے بنا دیا

اپنے عشق کی داستان ، تھوڑی عجیب و غریب ہے
خود تو وہ لیلی بن نہ سکی ، اور مجنوں مجھے بنا دیا

ساحل کو الزام نہ دو ، ساحل کی خطا نہیں
تیرے ہی تقبر نے ، نظر سے تجھے گرا دیا