آج تھی ضرورت کسی یار کی

kisi yaar ki

آج تھی ضرورت کسی یار کی
کسی اپنے کسی غم خار کی

کس تڑپ میں بہے آنسو
کمی تھی شاید پیار کی

ڈھونڈا حل اُنکی مشکلات کا
شیخ ہوتے تو بات تھی اختیار کی

بھول کر موت، مانگی خیر اُنکی
ہفتہ وار کی عبادت پروردگار کی

نعمانؔ مانگتا اپنے لیے تو مل جاتا
مگر ازمائش تھی دلِ بےقرار کی

چل اڑ جا رے پنچھی

چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بے گانہ
چل اڑ جا رے پنچھی۔۔۔

ختم ہوئے دن اس ڈالی کے جس پر تیرا بسیرا تھا
آج یہاں اور کل ہو وہاں یہ جوگی والا پھیرا تھا
یہ تیری جاگیر نہیں تھی چار گھڑی کا ڈیرا تھا
سدا رہا ہے اس دنیا میں کس کا آب و دانہ
چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بے گانہ
چل اڑ جا رے پنچھی۔۔۔

مزید پڑھیں […]

اک بُرائی کے آسیب میں ہوں مُبتلا

unke khat

اک بُرائی کے آسیب میں ہوں مُبتلا
ڈھونڈتا ہوں وہی چہرہ، جو نہ ملا

رشک اُس پر، جس نے پایا اُنھیں
اُنکے چاہنے والوں سے کیا گِلا

اس غم میں صرف میں نہیں ساقی
آج محفل میں زاہد کو بھی پِلا

ریشم سے نازک محبت کی قبا
جو پھٹے اک بار دوبارہ نہ سلا

گل فروش کے باغ میں بہار آئی
کوئی تو بچائے! گُلاب کھلا

یاد کرنے ہیں اُنکے عہد سبھی
خُدارا نعمان، خط ابھی نہ جلا

سال ہہ سال گزارتے یادِ جاناں میں ہم

yaad-e janaan

سال ہہ سال گزارتے یادِ جاناں میں ہم
خود کو رہے اُجاڑتے یادِ جاناں میں ہم

مشکل نہ ہو یاد کرنے میں، جونؔ کی طرح
اسکا چہرہ رہے اُبھارتے یادِ جاناں میں ہم

اس شہرِ بیابان میں، دیکھ کر موت اپنی
بھاگے جاناں جاناں پُکارتے یادِ جاناں میں ہم

روئے مورخ کے سامنے، سسک سسک کر بادشاہ
اپنی شاہی کا لبادہ اُتارتے یادِ جاناں میں ہم

بیٹھے وہ مغرور سامنے، لیے انا ہم ساتھ میں
دیکھتے اُنھیں، کسی کا بت نکھارتے یادِ جاناں میں ہم

میرے لفظ نہیں مہتاج کسی صورت کے

mere lafaz

میرے لفظ نہیں مہتاج کسی صورت کے
میں لکھتا ہوں فقط حال سیرت کے

میں نے گوا دیے سبھی دوست اپنے
اب ساتھ محض لوگ ہیں ضرورت کے

سکون درکار نہیں، اپنا ہی ہوں دشمن
چاہیے لمحے وہی جو تھے مسرت کے

دل! نکالے گئے جس عمارت سے ہم
اُٹھائے ہوئے ہیں بوجھ اُسی عمارت کے

جو دن گزارے تھے تیرے ہجر میں
جان! وہ دن تھے میری شرارت کے

ہوئی مدت آنکھوں کو چمکے ہوئے
اب بخش دے تحائف زیارت کے

میسر رہے صرف مجھے سماعت تیری
ہم نہیں جائیں گے پیچھے شُہرت کے

مُصلت کیے نعمان، تم نے وہ فیصلے بھی
ہم جن پر رکھتے تھے حق مشاورت کے

کوئی میرے لیے تجھ سا نہیں تھا

کوئی میرے لیے تجھ سا نہیں تھا
ستم یہ ہے تو ہی اپنا نہیں تھا

بغیر اسکے مجھے جینا پڑیگا
کبھی میں نے تو یہ سوچا نہیں تھا

میری آنکھوں کا دھوکہ تھا یقینا
کبھی بھی عشق یہ سچا نہیں تھا

یہ راستے ہر قدم تھے ساتھ میرے
میں تنہا ہو كے بھی تنہا نہیں تھا

زمانے كے لیے ھوگا وہ محسن
میرے حق میں کبھی اچھا نہیں تھا

مقدر بن گیا زمرین وہ ہی
جسے میں نے کبھی چاہا نہیں تھا

عشق پر گیت لکھوں کیوں کر، عشق میں رہا سرورنہیں

janna mai chahye

عشق پر گیت لکھوں کیوں کر، عشق میں رہا سرورنہیں
سُر تال کے نشے میں جھوم اُٹھا، چڑھا کوئی فطور نہیں

میری حالت پر نہ ترس کھا ،کہ ابھی جان سے گزرنا ہے
خودی بنا رکھی ہے یہ حالت اپنی، مُصور کا قصور نہیں

مجھے جنت میں بھی چاہیے صرف اور صرف تیرا ساتھ
وہاں بھی طلبِ تحت، طلبِ مہ یا طلبِ حور نہیں

طلب یوں جیسے آواز کو الفاظ کی، گیت کو ساز کی
لیکن چھین لوں تیری خوشی یہ بھی منظور نہیں

وہ گناہ کیے جو بتاؤں تو مان لیں اُستاد اپنا
ان گناہگاروں میں لیکن ابھی ہونا مشہور نہیں

کوئی کر نا دے نعمانؔ ذخمی مجھے، پہنی ہتھکڑی اس لیے
ورنہ میں کوئی مجرم نہیں، تیرے زنداں میں محصور نہیں