نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
مسافر کے عنوان پر شاعری کا تازہ ترین مجموعہ پڑھیں۔ مشہور شعرا کی شاعری کا اردو اور رومن اردو میں لطف اٹھائیں
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے
آنکھوں میں رہا، دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
ریت ہی ریت ہے اِس دِل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقش کفِ پا چاہتا ہے
وہ رات کا بےنوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہَم نے دیکھا پِھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں