اوروں کی طرف تو دیکھتا ہے
اوروں کی طرف تو دیکھتا ہے
ایدھر بھی تو کر نگاہ ظالم
لاکھ ہم شعر کہیں لاکھ عبارت لکھیں
بات وہ ہے جو ترے دل میں جگہ پاتی ہے
باتوں میں لگائے ہی مجھے رکھتا ہے ظالم
وعدے وہی جھوٹے ہیں وہی شام و سحر روز
میں جن کو بات کرنا اے مصحفیؔ سکھایا
ہر بات میں وہ میری اب بات کاٹتے ہیں
اک دن تو لپٹ جائے تصور ہی سے تیرے
یہ بھی دل نامرد کو جرأت نہیں ملتی
آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں
عید اب کے بھی گئی یوں ہی کسی نے نہ کہا
کہ ترے یار کو ہم تجھ سے ملا دیتے ہیں