آئے تو یوں كے ہمیشہ تھے مہربان

آئے تو یوں كے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں كے گویا کبھی آشْنا نہ تھے
آئے تو یوں كے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں كے گویا کبھی آشْنا نہ تھے
کون روتا ہے یہاں رات كے سناٹوں میں
میرے جیسا ہی کوئی عشق کا مارا ہو گا
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اُس کو
میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہو گا
ہر اک جذبات کو زُبان نہیں ملتی
ہر اک آرزو کو دعا نہیں ملتی
مسکراہٹ بنائے رکھو تو دُنیا ہے ساتھ
آنسوؤں کو تو آنکھوں میں بھی پناہ نہیں ملتی
میں نئے معصوم بہاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میں نے پرنم ستاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میرے محبوب تیری پردہ نشینی کی قسم
میں نے اشکوں کی قطاروں میں تمہیں دیکھا ہے
مجھے اب کچھ سجھائی نہیں دیتا
وہ اپنے تک رسائی نہیں دیتا
میں تکتی رہوں پاگلوں کی طرح
وہ ظالم کہیں دکھائی نہیں دیتا
کیا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں
پِھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا
کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ ؟ کس کی ہے شہرت
کیا تم نے کبھی داغ کا دیوان نہیں دیکھا
تمہاری ہر اک بات بے وفائی کی کہانی ہے
لیکن تیری ہر سانس میری زندگی کی نشانی ہے
تم آج تک سمجھ نہیں سکے میرے پیار کو
اس لئے میرے آنسوں بھی تیرے لیے پانی ہیں
بروز حشر میں بے خوف گھس جاؤں گا جنت میں
وہاں سے آئے تھے آدم وہ میرے باپ کا گھر ہے
——
ان عمل كے ساتھ جنت کا طلبگار ہے کیا
وہاں سے نکالے گئے آدم تو تیری اوقات ہے کیا
نوٹ: یہ اشعار علامہ اقبال کے نہیں ہیں