وہ جو کہتا تھا عشق میں کیا رکھا ہے

وہ جو کہتا تھا عشق میں کیا رکھا ہے
ایک ہیر نے اسے رانجھا بنا رکھا ہے
وہ جو کہتا تھا عشق میں کیا رکھا ہے
ایک ہیر نے اسے رانجھا بنا رکھا ہے
میں نئے معصوم بہاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میں نے پرنم ستاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میرے محبوب تیری پردہ نشینی کی قسم
میں نے اشکوں کی قطاروں میں تمہیں دیکھا ہے
پتہ ہے مجھے یہ بارشیں کیوں پسند ہیں
یہ برستی ہیں اداس لوگوں کی طرح
چارہ گر ، آج ستاروں کی قسم کھا کے بتا
کس نے انساں کو تبسم کے لیے ترسایا
دسمبر کی سرد اُداس کالی راتوں میں
تیرے ہجر کے ناگ بہت ڈسا کرتے ہیں
یہ سہانا موسم عاشقی اور تمہاری آنکھ کے سوال ؟
رووٹھو مت جاناں ، ہم ہر جواب جانتے ہیں
جب بھی کوئی سرد ہوا کا جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا ہے
تیرا آہیں بھر بھر کر سسکنا میرے دِل کو محسوس ہوتا ہے