نکل کے تیرے پہلو سے میں جاؤں تو کہاں جاؤں
نکل کے تیرے پہلو سے میں جاؤں تو کہاں جاؤں
بھلا کے تیری یادوں کو میں چاہو تو کسے چاہوں
اداؤں پے تیرے ’ احسان ’ بہت تو مر ہی جاتے ہیں
مگر تیری اداؤں کو میں پاؤں تو کہا پاؤں
نکل کے تیرے پہلو سے میں جاؤں تو کہاں جاؤں
بھلا کے تیری یادوں کو میں چاہو تو کسے چاہوں
اداؤں پے تیرے ’ احسان ’ بہت تو مر ہی جاتے ہیں
مگر تیری اداؤں کو میں پاؤں تو کہا پاؤں
ایک بے وفا سے دوستی لگا کر رو پڑے
اسے دوبارہ دیکھ کر خوشی سے رو پڑے
وہ تو دوست کی شکل میں تھا ہی بے وفا
اسے اپنا دِل دے کر رو پڑے
یہ دن یونہی گزر جائیں گے
شاید ہم دوست یونہی بچھڑ جائیں گے
ناراض مت ہونا ہماری شرارتوں سے
یہی وہ پل ہے جو اکثر یاد آئیں گے
میں نے اس سے پوچھا
بھلا دیا مجھ کو کیسے
بجا کے چٹکیاں وہ بولی
ایسے ، ایسے ، ایسے
زندگی ملی تو کیا ملی
بن کے بے وفا ملی
اتنے میرے گناہ نہ تھے
جتنی مجھے سزا ملی
یاروں کے ستم ان کی جفا یاد کریں گے
اب ظلم دوستی کی سزا یاد کریں گے
کبھی بھول کر بی نام نہ لیں گے وفا کا
ایسی چوٹ لگی ہے کے سدا یاد کریں گے
اک وقت کے کھونے کا احساس ہوا ہے
یہ لمحہ نا کبھی سچ ماں پاس ہوا ہے
کیوں ملتی مجھے وقتی رہائی بھی رنج
جذبات کا قیدی بھی کبھی خاص ہوا ہے
جب میں نے اپنے گلاب کو حسین سا گلاب دیا
یہ نظارہ دیکھ کر چاند بھی شرما گیا
بکھیر دی چاندنی ہماری صداقت كے واسطے
اسکا نور سا چہرہ بہت خوب نظر آیا