اِس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
اِس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دِل كے رخصار پہ اِس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابحی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
اِس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دِل كے رخصار پہ اِس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابحی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
یہ آج کون سے طوفان میں ہے سفینہ دل
كے دور دور کنارے نظر نہیں آتے
ہجوم یاس ہے اور منزلوں اندھیرا ہے
وہ رات ہے كے ستارے نظر نہیں آتے
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا كے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا كے ساتھ
اللہ رے گمراہی، بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومن چلے ہیں کعبے کو اک پارسا كے ساتھ
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے كہ تعویذ بنا لیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ كے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں
ورنہ ہجر کا موسم کس کو راس آتا ہے
تو ہواؤں کا موسم تجھ کو کیا خبر جاناں
گردِ بعد گمانی سے دل بھی ٹوٹ جاتا ہے
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے كے منہ نہ لگو تو بہتر ہے
کپڑے بدل کر ، بال بنا کر ، کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر ہی رہو تو بہتر ہے
پِھر جوگی جی بیدار ہوئے اِس چھیڑ نے اتنا کم کیا
پِھر عشق كے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اک جام دیا
واں پریم کا ساگر چلتا ہے چل دِل کی پیاس بھجا جوگی
واں دِل کا غنچہ کھلتا ہے گا گلیوں میں موہن ملتا ہے