انسانوں کے اِس بستی میں
انسانوں کے اِس بستی میں
انسانوں کے تلاش میں ہوں
بےحسی کے ردا اوڑھے۔۔۔ نیم وا حجابوں سے
آنكھوں کے سرخی مائل
گہرے پانیوں میں اجڑے ہوئے جزیرے
ڈھلتے سورج کی لڑکھڑاتی ہوئی کرنوں کی
آخری رسومات میں گھنگھور گھٹاؤں کا چغہ پہنے
انسانوں کے اِس بستی میں
انسانوں کے تلاش میں ہوں
بےحسی کے ردا اوڑھے۔۔۔ نیم وا حجابوں سے
آنكھوں کے سرخی مائل
گہرے پانیوں میں اجڑے ہوئے جزیرے
ڈھلتے سورج کی لڑکھڑاتی ہوئی کرنوں کی
آخری رسومات میں گھنگھور گھٹاؤں کا چغہ پہنے
نرسری کا داخلہ بھی سرسری مت جانئے
آپ كے بچے کو افلاطون ہونا چاہیے
دوستو انگلش ضروری ہے ہماری واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے
در چھوڑ کے سوئے دار نکلی
روح مری قفس سے بیزار نکلی
اک اک سانس بیچ رہی ہے
زندگی موت کی خریدار نکلی
چلیں ہیں ایک بار پِھر سے زندگی کی راہوں پہ
دعا کرنا دوستو اِس بار کوئی بے وفا نہ ملے
نظر انداز کرتے ہو ، لو ہٹ جاتے ہیں نظروں سے
انہی نظروں سے ڈھونڈو گے ، نظر جب ہَم نہ آئیں گے
پہلے میرے خط كے اس نے
اک انجانے خوف سے ڈر کر
ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے
اب
مزید پڑھیں […]
جب بھی تم سامنے آتے ہو
اب کی ساری خزاں زدہ گھڑیاں
گزری بہاروں میں ڈھل سی جاتی ہیں
وقت کی آغوش میں سوئی ہوئی وفائیں
پِھر سے مچل سی جاتی ہیں
اک بہکا سا خیال دریچوں پہ دستک دیئے بغیر
دِل کے آنگن میں آ جاتا ہے
پِھر سے دبی ہوئی سسکیوں کو بہلایا جاتا ہے
اس وحشت زدا آنگن کے اک کونے میں
جذبوں کے طاق پر پڑا
گل کیا ہوا تیری یادوں کا چراغ
پِھر آتش عشق سے جلنے لگتا ہے
پِھر میرا تصور تیرے تصور میں ڈھلنے لگتا ہے
جب بھی تم سامنے آتے ہو
تیرے پر لطف لہجے کی مسیحائی سے
شہر خموشاں میں دفن میرے جوان جذبات کو
پِھر سے حیات نو عطا ہوتی ہے
پِھر اک نئی محبت کی ابتدا ہوتی ہے
رحمت ھے جس سے دو عالم میں وہ انکی ذات ھے
محبوب ھے جو میرے رب کا وہ ان کی ذات ھے
درود و سلام کی صدائیں گونجتیں ہیں صبح و شام
آغاز ھو جن سے دعاؤں کا وہ انکی ذات ھے