در چھوڑ کے سوئے دار نکلی
روح مری قفس سے بیزار نکلی
اک اک سانس بیچ رہی ہے
زندگی موت کی خریدار نکلی
لگنے لا تماشایِئوں کا ہجوم
پِھر کوئی جان سار بازار نکلی
بحر قضا میں زندگی کی ناؤ
اس پر ڈوبی اس پر نکلی
بتِ انجم کو بخش کے سانسیں
دِل پر سوز جان بے قرار نکلی