جب بھی تم سامنے آتے ہو
اب کی ساری خزاں زدہ گھڑیاں
گزری بہاروں میں ڈھل سی جاتی ہیں
وقت کی آغوش میں سوئی ہوئی وفائیں
پِھر سے مچل سی جاتی ہیں
اک بہکا سا خیال دریچوں پہ دستک دیئے بغیر
دِل کے آنگن میں آ جاتا ہے
پِھر سے دبی ہوئی سسکیوں کو بہلایا جاتا ہے
اس وحشت زدا آنگن کے اک کونے میں
جذبوں کے طاق پر پڑا
گل کیا ہوا تیری یادوں کا چراغ
پِھر آتش عشق سے جلنے لگتا ہے
پِھر میرا تصور تیرے تصور میں ڈھلنے لگتا ہے
جب بھی تم سامنے آتے ہو
تیرے پر لطف لہجے کی مسیحائی سے
شہر خموشاں میں دفن میرے جوان جذبات کو
پِھر سے حیات نو عطا ہوتی ہے
پِھر اک نئی محبت کی ابتدا ہوتی ہے
Subscribe
0 Comments