اِس سے پہلے كہ سال کی آخری شام تمام ہو

اِس سے پہلے كہ سال کی آخری شام تمام ہو
اور تو بھی مصروف نو ایام ہو
اِس سے پہلے کہ میں زیست گروی رکھ دوں
کسی اور کے پاس
اِس سے پہلے کہ تیرے ھاتھوں کا لمس
تیرے لبوں کی مسیحائی اور تیرے لہجے کی پزیرائی
ہار دوں کہیں اور
مانا دوست کہ ہجر تو اب مقدر ٹھہرا
مگر اِس سے پہلے کہ ہَم بچھڑ جائیں
مزید پڑھیں […]