کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہَم گلہ
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہَم گلہ
کی اک ہی نگاہ کے بس خاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہَم گلہ
کی اک ہی نگاہ کے بس خاک ہو گئے
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا آزمایا
یہ اشک جو تو نے مجھ کو دیئے سوغات کی مانند
برستے ہیں زخم آنكھوں سے میری برسات کی مانند
میں کیسے بھلا دوں تجھے اے میری جان كے قاتل
رہتا ہے خیالوں میں میرے تو لمحات کی مانند
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی ، تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دِل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں
تم ہو ضدی میں ہوں دیوانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
تم ہو شمع میں ہوں پروانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
انجام وفا کیا ہے سوچا نہیں کرتے
مومن کبھی حالت سے سودا نہیں کرتے
یہ حوصلہ سکھایا ہے دین اسلام نے
سَر سجدے میں ہو تو تلوار کی پرواہ نہیں کرتے
رنگ نکھرے تو سبھی گل بھی تھے خوش پوش رہے
مہکی فضاؤں میں یوں ہواؤں كے ہَم دوش رہے
لمحے تھے قید تیرے لہجے کی کھنک کو سن کر
ہَم بھی تھے مست اور سراپا ہمہ تں گوش رہے