گناہ کر كے محبت کا کوئے یار چلے
گناہ کر كے محبت کا کوئے یار چلے
شوق آوارگی میں عاشق بے شمار چلے
ستم ظریفی کی محفل میں بولی لگ نہ سکی
نظر میں کھوٹ تھا پِھر کیسے کاروبار چلے
گناہ کر كے محبت کا کوئے یار چلے
شوق آوارگی میں عاشق بے شمار چلے
ستم ظریفی کی محفل میں بولی لگ نہ سکی
نظر میں کھوٹ تھا پِھر کیسے کاروبار چلے
جھیل کنارے بیٹھ كے دونوں
پھولوں کی برسات کریں
موتی پڑو كے ان آنكھوں میں
سپنوں پہ ہَم بات کریں
بلھے نوں لوک مَتیں دیندے، توں جا بہو مسیتی
وچ مسیتاں کِیہ کجھ ہوندا، جے دِلوں نماز نہ نیتی
باہروں پاک کیتے کیہ ہوندا، جے اندروں نا گئی پلیتی
بن مرشد کامل بلھیا، تیری اینویں گئی عبادت کیتی
حیران ہوں تم کو مسجد میں دیکھ کے غالب
ایسا بھی کیا ہوا كہ خدا یاد آ گیا
اک خواب مسلسل آتا ہے
تیرا چہرہ نیند سجاتا ہے
پھولوں پہ بھنورے کی مانند
میرے دِل کو وہ بہلاتا ہے
وعدہ تو کیا ہے مگر ایفا نہ کریں گے
ایفا جو کریں گے کوئی اچھا نہ کریں گے
لوگوں سے چھپالیں گے جو احوال ہے جی کا
اپنے سے کسی بات میں دھوکا نہ کریں گے
اے دل ترے فرمانوں کو ٹالا ہے نہ ٹالیں
اُن کی بھی ترے سامنے پرواہ نہ کریں گے
اِس راہ کو ہم چھوڑ کے جائیں کسی جانب
آرزدہ نہ ہو ہم کبھی ایسا نہ کریں گے
لکھیں گے اُسی ٹھاٹ سے نظمیں، کبھی غزلیں
ہاں آج سے لوگوں کو دِکھایا نہ کریں گے
وہ میری بدسلوکی میں بھی مجھے دعا دیتی ہے
آغوش میں لے کر سب غم بھلا دیتی ہے
تصور میں تیرے ہمیشہ مخمور رہا ہوں
تو میرا ہَم نشیں ہے بہت مغرور رہا ہوں
دِل كے نگار خانے میں تجھ کو سجا لیا ہے
یوں الفت کی دنیا میں بہت مشہور رہا ہوں