تیری صورت کو دیکھنے والے
تیری صورت کو دیکھنے والے
سنا ہے کوئی اور نشہ نہیں کرتے
صباء چلی زلف کھلی خوشبو پھیلی فضاؤں میں
ہوئی صبح کلی چٹخی کھلے گلاب ہواؤں میں
تیری نظر سے میری نظر تک حَسِین سفر گزر گیا
حیا آئی جھکی پلکیں شرام آئی نگاہوں میں
میں نئے معصوم بہاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میں نے پرنم ستاروں میں تمہیں دیکھا ہے
میرے محبوب تیری پردہ نشینی کی قسم
میں نے اشکوں کی قطاروں میں تمہیں دیکھا ہے
کبھی یوں بھی ہَم نے کاغذ پہ اتاری غزلیں
قلم رو دیا تو ہنس پڑی ساری غزلیں
ہَم نے اپنے ہنر کو بہت دیر تک آزمایا
جیتے تم ہی آخر اور ہاری غزلیں
پتہ ہے مجھے یہ بارشیں کیوں پسند ہیں
یہ برستی ہیں اداس لوگوں کی طرح
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
اک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا اک اک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں
مزید پڑھیں […]
وہ تیرا آنکھ بھر کے مجھے دیکھنا
وہ تیرا دیکھنا ہی کمال تھا
میری جستجو كے احساس پر
تیرا لمس بھی تو بے مثال تھا
مجھے اب کچھ سجھائی نہیں دیتا
وہ اپنے تک رسائی نہیں دیتا
میں تکتی رہوں پاگلوں کی طرح
وہ ظالم کہیں دکھائی نہیں دیتا