آئی جو تیری یاد تنہائی میں
آئی جو تیری یاد تنہائی میں
آنکھیں برستی رہی جدائی میں
آئی جو تیری یاد تنہائی میں
آنکھیں برستی رہی جدائی میں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے كلام کی
روح القدس اگرچہ میرا ہَم زُبان نہیں
یاد ہیں غالب ! تجھے وہ دن کہہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا ، تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک
سپنے بننے کا حساب رکھا ہے
درد كے سہنے کا عذاب رکھا ہے
ساون کی رات میں جنوں کا لمحہ
جلتی آنكھوں میں خواب رکھا ہے
آئے ہیں وہ نقاب اتار كے میرے مزار پہ
مجھ سے نصیب اچھا ہے میرے مزار کا
ہم تو دوستی کے لیے تیار تھے
مگر وہ بدنصیب ہمیں اپنا دوست بنا نہ پایا
ہم سے دوستی اتنی مشکل نہ تھی
مگر وہ غافل ہمارے اصول اپنا نہ پایا
اسے تو ہماری قدر آ ہی گئی
مگر وہ ہمیں پِھر ڈھونڈ نہ پایا
وہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں ہیں آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
کون دیکھتا ہے کسی کو اب سیرت اخلاق کی نظر سے
صرف خوبصورتی کو پوجتے ہیں نئے زمانے كے لوگ