تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ہر بار تجھ سے ملتے وقت
تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے
تیرے جانے كے بعد بھی میں نے
تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
اس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دِل کا
بھڑک اٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا
عشق سنتے تھے جسے ہَم وہ یہی ہے شاید
خود بہ خود ہے دِل میں اک شخص سمایا جاتا
وہ راستے میں پلٹا تو رک میں بھی گیا
پھر قدم قدم نہ رہے سفر سفر نہ رہا
نظروں سے گرایا اسکو کچھ اس طرح ہَم نے
کہہ وہ خود اپنی نظروں میں معتبر نہ رہا
میرا ہر دن تیری ہر رات سے بہتر ہو گا
میرا ہر شعر تیری ہر بات سے بہتر ہو گا
تو بھی دیکھ لینا اپنی بے وفا نظروں سے
میرا جنازہ تیری بارات سے بہتر ہو گا
کب ہوئی پیار کی برسات مجھے یاد نہیں
خوف میں ڈوبی ملاقات مجھے یاد نہیں
میں تو مدھوش تھا کچھ اتنا اسکی چاہت میں
اس نے کب چھوڑ دیا ساتھ مجھے یاد نہیں
ریت پہ کبھی نام لکھتے نہیں
لکھے نام کبھی ٹکتے نہیں
لوگ تو کہتے ہیں ہم پتھر دِل ہیں
لیکن پتھروں پہ لکھے نام کبھی مٹتے نہیں