کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلہ
ہے شوق سفر ایسا اک عرصہ سے یارو
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلہ
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلہ
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلہ
ہے شوق سفر ایسا اک عرصہ سے یارو
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلہ
بچھڑ گئے تو پِھر ملنے کے آس کیا رکھیں
مرجھائے ہوئے پھول کھلنے کے آس کیا رکھیں
لگائے ہیں جو خود اپنے ہاتھ سے انجم
ان زخموں کے سلنے کی آس کیا رکھیں
وہ خوشی تھا امید تھا اک احساس تھا
بعد میں یہ گمان ہوا بس پل دو پل کا ساتھ تھا
رہتا ہے آج بھی انتظار اِس آنکھ کو کسی اپنے کا
وہ جا کر آج بھی ساتھ ہے جو کبھی ہمارے پاس تھا
صبح و شام فلسطیں میں خوں بہتا ہے
سایۂ مرگ میں کب سے انساں رہتا ہے
بند کرو یہ باوردی غنڈہ گردی
بات یہ اب تو ایک زمانہ کہتا ہے
ان كے بارے میں ہے اپ ٹو ڈیٹ اپنی آگہی
کون سے تھے جن كے ہم زخم جدائی سہہ گئے
شکر ہے نسوار کی ڈبیہ پہ آئینہ بھی ہے
دیکھ لیتے ہیں كے کتنے دانت باقی رہ گئے
جان کی بھیک مانگنے کی لیے بھی
کبھی ہاتھ ہَم نے پھیلایا ہی نہیں
انجم مجھ کو میرے واعظ نے
سسک کر جینا سکھایا ہی نہیں
آج بھی اس کی آنكھوں میں راز وہی تھا
چہرہ وہی تھا چہرہ کا لباس وہی تھا
کیسے اس کو بے وفا کہہ دوں یارو
آج بھی اس كے دیکھنے کا انداز وہی تھا
خوداریوں كے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہَم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
کس درجہ دِل شکن تھے محبت كے حادثے
ہَم زندگی میں پِھر کوئی اَرْماں نہ کر سکے