دامن جھٹک کے وادئ غم سے گزر گیا

دامن جھٹک کے وادئ غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے
ازل سے بے سمت جستجو کا سفر ہے درپیش پانیوں کو
کسے خبر کس کو ڈھونڈتا ہے میری طرح رائیگاں سمندر
ریت ہی ریت ہے اِس دِل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقش کفِ پا چاہتا ہے
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
عجب تضاد میں کاٹا ہے زندگی کا سفر
لبوں پہ پیاس تھی بادل تھے سر پہ چھائے ہوئے
سفر طویل تھا میرا رافیق کوئی نہ تھا
میرا یہ دکھ کے دکھوں میں شریک کوئی نہ تھا
حسن نثار
اس کی یاد کو بنا لیتا ہوں ہمسفر اپنا
میرے ساتھ جب کوئی ہمسفر نہیں ہوتا
انجم عزیز عباس