تم ہو ضدی میں ہوں دیوانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
تم ہو شمع میں ہوں پروانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
تمہیں ناز ہے حُسن پر
مجھے فخر ہے عشق پر
میں تمہیں آزماتا ہوں
تم مجھے آزماتا ہوں، تم مجھے آزمانا
جیت کس کی ہوتی ہے
تمہیں ڈر ہے رسوائی کا
مجھے خوف ہے جدائی کا
تم عشق سے عاری
میں عقل سے بیگانہ
جیت کس کی ہوتی ہے
میں بھی مر گیا تو
زندہ رہوں گا تیرے خیالوں میں
پِھر پوچھے گا، میرا عشق جاناں
جیت کس کی ہوتی ہے
نکل جاؤ جو تم کبھی
اپنی ضد كے حصار سے
پِھر تم خود ہی۔سب کو بتانا
جیت کس کی ہوتی ہے