ہَم نے تو خود سے انتقام لیا
ہَم نے تو خود سے انتقام لیا
تم نے کیا سوچ کر محبت کی
مت کہو مجھے اظہار محبت زُبان سے بیان کرنے کو
سنا ہے زمانے سے كے ہوتے ہیں کان دیواروں كے بھی
ہونے دو یہ قصہ بیان آنکھوں سے سحر
كہ یہ کر دیتی ہیں ہر بات خاموشی میں بھی
کاش تمہیں بچپن سے ہی مانگ لیتا خدا سے
ہر چیز تو مل جاتی تھی دو آنسوں بہانے سے
کون کہتا ہے كے موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتَر جاؤں گا
اک وقت کے کھونے کا احساس ہوا ہے
یہ لمحہ نا کبھی سچ ماں پاس ہوا ہے
کیوں ملتی مجھے وقتی رہائی بھی رنج
جذبات کا قیدی بھی کبھی خاص ہوا ہے
میں نے کہا میں تجھ پہ مرتا ہوں
اس نے ہنس کر کہا پھر زندہ کیوں ہو ؟