میں نے جو لکھ دیا وہ خود ہے گواہی اپنی

میں نے جو لکھ دیا وہ خود ہے گواہی اپنی
جو نہیں لکھا ابھی اس کی بشارت دوں گا
میں نے جو لکھ دیا وہ خود ہے گواہی اپنی
جو نہیں لکھا ابھی اس کی بشارت دوں گا
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
اجنبی حیران مت ہونا کہ در کھلتا نہیں
جو یہاں آباد ہیں ان پر بھی گھر کھلتا نہیں
دیکھتے کچھ ہیں دکھاتے ہمیں کچھ ہیں کہ یہاں
کوئی رشتہ ہی نہیں خواب کا تعبیر کے ساتھ
یاد کا زخم بھی ہم تجھ کو نہیں دے سکتے
دیکھ کس عالم غربت میں ملے ہیں تجھ سے
اب جو لہر ہے پل بھر بعد نہیں ہوگی یعنی
اک دریا میں دوسری بار اترا نہیں جا سکتا
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے
ہم نے اس بار بھی توہین عدالت نہیں کی