مٹ جائے گناہوں کا تصور اِس جہاں سے
مٹ جائے گناہوں کا تصور اِس جہاں سے
اگر ہو جائے یقین كے خدا دیکھ رہا ہے
مٹ جائے گناہوں کا تصور اِس جہاں سے
اگر ہو جائے یقین كے خدا دیکھ رہا ہے
وہ بیان کر گیا اک منظر الیگار سے
ہر پل کو تراشا اور ارض کیا اپنے یار سے
کیا پتہ یہ صلہ ملتا ہے دِل لگانے کا
پیار کی کشتی کو اتارا تھا بڑے پیار سے
خوب پردہ ہے چِلْمَن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چپھتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
آواز دے كے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہَم ایسا سادہ دِل تھے كے ہر بار آ گئے
وہ دانائے سُبل، ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طٰہٰ
جب میں نے اپنے گلاب کو حسین سا گلاب دیا
یہ نظارہ دیکھ کر چاند بھی شرما گیا
بکھیر دی چاندنی ہماری صداقت كے واسطے
اسکا نور سا چہرہ بہت خوب نظر آیا
تمام تذکروں میں عظیم تذکرہ ہے دوست کا
مانو تو سب سے اعلی اور نرالا سفر ہے دوست کا
دوستی میں ہرشخصی پہلو کا ذکر کر لیتے ہے لوگ
اعتمادی اتنا ہے کی دِل سے قدر کرتے ہیں دوست کا