آیا نہیں تھا کبھی میری آنکھ سے اک اشک بھی
آیا نہیں تھا کبھی میری آنکھ سے اک اشک بھی
محبت کیا ہوئی اشکوں کا سیلاب آ گیا
آیا نہیں تھا کبھی میری آنکھ سے اک اشک بھی
محبت کیا ہوئی اشکوں کا سیلاب آ گیا
ساری رات کی جاگی آنکھیں
کالج میں کیا پڑھتی ہوں گی
یونہی کھوئے دِل ہی دِل میں
جانے کیا کیا کرتی ہوں گی
اُنہیں بے وفا جو کہوں تو توہین ہے وفا کی
وہ وفا نبھا رہے ہیں کبھی ادھر کبھی ادھر
زندگی ملی تو کیا ملی
بن کے بے وفا ملی
اتنے میرے گناہ نہ تھے
جتنی مجھے سزا ملی
یاروں کے ستم ان کی جفا یاد کریں گے
اب ظلم دوستی کی سزا یاد کریں گے
کبھی بھول کر بی نام نہ لیں گے وفا کا
ایسی چوٹ لگی ہے کے سدا یاد کریں گے
اصول عشق اتنا ہے جھکا کر سَر حکم مانو
کیا؟ کیوں؟ کرنے سے خفا محبوب ہوتے ہیں
یادوں میں تیری یاد تھی
کیا یاد تھا ، کچھ یاد نہیں
تیری یاد میں سب بھول گے
کیا بھول گے کچھ یاد نہیں
یاد ہو تم ، بس یاد ہو تم
کیوں یاد ہو تم ، کچھ یاد نہیں
آتی ہے یاد اکثر روتے ہیں بےبسی میں
اک بے وفا کو ہم نے چاہا تھا زندگی میں