توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
نہیں میں غم سے ابرا ہوں ، کہیں اک درد باقی ہے
نہیں وہ اب ملے گی پر ، ابھی امید باقی ہے
سفر میں عشق كے یارو ، میں کیا کیا داستان لکھوں
بہت سے خواب ٹوٹے ہے ، بہت سے خواب باقی ہیں
بس اسکی یاد میں اب تو ، مجھے کھونے دو اس حد تک
اگر میں رو رہا ہوں تو ، مجھے رونے دو اس حد تک
بہت آنسو ہے آنکھوں میں ، انہیں بہنے سے نہ روکو
بہے جو کچھ نہیں یہ تو ، ابھی سیلاب باقی ہے
رہے گی جان جب تک یہ ، اسے نہ بھول پاؤں گا
كہ جب تک مٹ نہ جاؤں میں ، اسےشدت سے چاہوں گا
حسین اب بات یہ ہے تو ، ابھی کیسے اسے بھولوں
ابھی ہیں دھڑکنیں دِل میں ، ابھی کچھ سانس باقی ہے
میں نے اس سے پوچھا
بھلا دیا مجھ کو کیسے
بجا کے چٹکیاں وہ بولی
ایسے ، ایسے ، ایسے
میں نے کہا تیری یاد میں آنکھیں روتی ہیں
جواب آیا یہ اسی طرح صاف ہوتی ہیں
پوچھا دَرْد ہجر کا کوئی علاج بتائیے
جواب آیا وصل ہو گا اسی طرح روتے جائیے
ہَم تیرے دِل میں اِس بہانے آئے
کیا بہانہ تھا دِل تم سے لگانے آئے
تمہیں معلوم ہو نا پایَہ ہماری آمَد کا سبب
اپنی خواہش تھی كے ہوش ٹھكانے آئے
مسلسل عشق کی بازی جو نا کھیلو تو بہتر ہے
محبت آگ جیسی ہے جلا کر راکھ کر دے گی
ہم لوگ تو ظُلمت میں جِینے کے بھی عادی ہیں
اس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیں
اِک یاد پہ آہوں کا طُوفاں اُمڈتا ہوا آتا ہے
اِک ذکر پہ اب دل کو تھاما نہیں جاتا ہے