ابھی تک یاد کر رہے ہو پاگل ہو تم قسم سے
ابھی تک یاد کر رہے ہو پاگل ہو تم قسم سے
اس نے تو تیرے بعد بھی ہزاروں بھلا دیئے
ابھی تک یاد کر رہے ہو پاگل ہو تم قسم سے
اس نے تو تیرے بعد بھی ہزاروں بھلا دیئے
بن تیرے دِل کی حالت کیا بتاؤں
جیسے خالی بستہ ہو کسی آوارہ طالب علم کا
موت اسکی اچھی جس پر زمانہ کرے افسوس
ورنہ یوں تو سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
ہم بھی چاہتے تھے غالب کی طرح شاعر بن جانا
مگر ہماری قلم تو اور کچھ لکھتی ہی نہیں تیرے نام کے سوا
لکھنا میرے مزار کے قطبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
اب کوئی مجھ کو دلائے نہ محبت کا یقین
جو مجھ کو بھول نہ سکتا تھا وہی بھول گیا