شہر کی اجنبی گلیوں میں

شہر کی اجنبی گلیوں میں
میری محبت مجھ سے کھو گئی

تو مجھ سے بچھڑ گیا کہیں
میں تنہا تنہا سی ہو گئی

جب دیکھا کسی کو کسی کے ساتھ
میں تجھے یاد کر کے رؤ گئی

تیری جدائی میں یوں برسیں آنکھیں
کے برسات میرا دامن بھگو گئی

مجھے اب کسی سے کیا گلہ کرنا توصیف
جب خود میری قسمت ہی سو گئی

اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے

اس نے کہا تھا عشق ڈھونگ ہے
میں نے کہا

تجھے عشق ہو خدا کرے
کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے
تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں
تیری آنکھیں پرنم رہا کریں
تو اس کی باتیں سنا کرے
تو اس کی باتیں کیا کرے
تجھے عشق کی وہ جھڑی لگے
تو ملن کی ہر پل دعا کرے
تو نگر نگر صدا کرے
تو گلی گلی پھرا کرے
تجھے عشق ہو پھر یقین ہو
اسے تسبیح پہ پڑھا کرے
پھر میں کہوں عشق ڈھونگ ہے
تو نہیں نہیں کیا کرے