جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو
تو قادر او عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا
جا تجھے آج سے ہم نے اپنے خدا کے حوالے کیا
ایک مدت ہوئی ہم نے دنیا کی ہر ایک ضد چھوڑ دی
ایک مدت ہوئی ہم نے دل کو وفا کے حوالے کیا
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
گزر گئے ہیں بہت دن رفاقت شب میں
اک عمر ہو گئی چہرہ وہ چاند سا دیکھے
تیرے سوا بھی کئی رنگ خوش نظر تھے مگر
جو تجھ کو دیکھ چکا ہو وہ اور کیا دیکھے
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
اب کے یوں دِل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے
ایک ایک پھول بہت یاد آیا
شاخِ گل جب جلا دی ہم نے