دل ہی تو ہے نہ آئے کیوں دم ہی تو ہے نہ جائے کیوں
دل ہی تو ہے نہ آئے کیوں دم ہی تو ہے نہ جائے کیوں
ہم کو خدا جو صبر دے تجھ سا حسیں بنائے کیوں
دل ہی تو ہے نہ آئے کیوں دم ہی تو ہے نہ جائے کیوں
ہم کو خدا جو صبر دے تجھ سا حسیں بنائے کیوں
کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی
دِل ٹوٹ تو جاتا ہے رہتا پِھر بھی سینے میں ہے
یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو
جس طرح تھامے کوئی گرتی ہوئی دیوار کو
سمجھ نہیں آتی وفا کریں تو کس سے کریں وصی
مٹی سے بنے یہ لوگ کاغذ كے ٹکڑوں پہ بک جاتے ہیں
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
خیالوں میں بھٹک جانا ، تیری یادوں میں کھو جانا
بہت ہی مہنگا پڑا ہَم کو ، ستم گر تیرا ہو جانا
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
مجھے سے کہتی ہے تیرے ساتھ راہوں گی فراز
بہت پیار کرتی ہے مجھ سے اُداسی میری