بڑے یقین سے دیکھی تھی ہَم نے صبح امید
بڑے یقین سے دیکھی تھی ہَم نے صبح امید
قریب پہنچے تو واصف وہ روشنی نہ رہی
بڑے یقین سے دیکھی تھی ہَم نے صبح امید
قریب پہنچے تو واصف وہ روشنی نہ رہی
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی
ملنے کا وعدہ ان كے تو منه سے نکل گیا
پوچھی جگہ جو میں نے تو کہا ہنس كے خواب میں
بتا ذرا ، کونسی بہار لے کے آیا ہے جنوری
تم تو کہتے تھے کہ بہت ویران ہے دسمبر
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے