گھر سے نکل کر اپنے تیرے آستان تک پہنچوں

گھر سے نکل کر اپنے تیرے آستان تک پہنچوں
گماں كے رنگوں میں حد گماں تک پہنچوں
پِھر انہی موسموں كے درمیان چلتے چلتے
بہاروں سے نکلتے ہوئے خزاں تک پہنچوں
گھر سے نکل کر اپنے تیرے آستان تک پہنچوں
گماں كے رنگوں میں حد گماں تک پہنچوں
پِھر انہی موسموں كے درمیان چلتے چلتے
بہاروں سے نکلتے ہوئے خزاں تک پہنچوں
ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
دِل کو دِل سے راہ ہے تو ، جس طرح سے ہَم تجھے
یاد کرتے ہے کرے یوں ہی ہمیں بھی یاد تو
کہہ دیا تو نے جو معصوم تو ہم ہیں معصوم
کہہ دیا تو نے گنہ گار گنہ گار ہیں ہم
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
ہمیں ہو گا کچھ اور درکار ، دیکھیں
اگر سامنے صورت یار دیکھیں
ہوئی ختم جاتی ہے امیدِ الفت
ہَم اپنی قضا كے ہی آثار دیکھیں
آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی
میں بھی ہمراہ زمانہ کے بدل جاؤں گا