ہمیں ہو گا کچھ اور درکار ، دیکھیں
اگر سامنے صورت یار دیکھیں
ہوئی ختم جاتی ہے امیدِ الفت
ہَم اپنی قضا كے ہی آثار دیکھیں
ہمیں بھی مٹائے گی تیری محبت
رہا شہر میں کیا ہے پندار دیکھیں
ہمہ دم یہ دِل میرا مشتاق و مضطر
تمہیں ہم سدا ہم سے بیزار دیکھیں
چلیں چپکے چپکے سویرے ہی مرنے
ابھی ہو گا وہ شوخ بیدار دیکھیں
ہے ‘سردار’ خواہاں ابھی تک اسی کا
کوئی ایسا اپنا زیاں کر دیکھیں