ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں

ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
پاؤں کی دھول کو دستار سے لڑنا ہو گا
اب غریبوں کو بھی زردار سے لڑنا ہو گا
جنگ تو جیت گیا ہوں میں جہاں والوں سے
اب مجھے اپنے ہی گھر بار سے لڑنا ہو گا
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں
وہ مجھ سے بچھڑ کر اب تک رویا نہیں غالب
کوئی تو ہے ہمدرد جو اسے رونے نہیں دیتا
اک دن کی بات ہو تو اسے بھول جائیں ہم
نازل ہوں دل پہ روز بلائیں تو کیا کریں
آنکھوں میں رہا، دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی
اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا