پاؤں کی دھول کو دستار سے لڑنا ہو گا
اب غریبوں کو بھی زردار سے لڑنا ہو گا
جنگ تو جیت گیا ہوں میں جہاں والوں سے
اب مجھے اپنے ہی گھر بار سے لڑنا ہو گا
گر بسانی ہے محبت کی نئی دنیا تو
اے دیوانوں تمھیں سنسار سے لڑنا ہو گا
کیا خبر تھی كے گھڑی بھر كے سکون کی خاطر
دھوپ میں سایہ دیوار سے لڑنا ہو گا
مات کھائیں گے جو میدانون سے ہٹیں گے پیچھے
اب ہمیں جزبہ ایثار سے لڑنا ہو گا
ہم نے آپس میں لڑائی تو بہت کر لی ہے
اب ہمیں ملک كے غدار سے لڑنا ہو گا
جنگ دشمنوں سے نہیں اپنے لہو سے ہو تو
تیر و تلوار نہیں پیار سے لڑنا ہو گا
روح کو جسم سے آزاد اگر ھونا ہے
ہر گھڑی سانسوں کی تلوار سے لڑنا ہو گا