وعدہ کرنا بھی نہِیں تُجھ کو نِبھانا بھی نہِیں
وعدہ کرنا بھی نہِیں تُجھ کو نِبھانا بھی نہِیں
سب ہے معلوم تُُجھے لوٹ کے آنا بھی نہِیں
رہنے دیتا ہی نہِیں تو جو درونِ دل اب
اور مِرا دِل کے سِوا کوئی ٹھِکانہ بھی نہِیں
کِتنے جُگنو تھے، مِرے دوست ہُوئے گرد آلود
اب مُجھے دِیپ محبّت کا جلانا بھی نہِیں