بُرا تھا یا بھلا جیسا بھی تھا رکھا گیا تھا
بُرا تھا یا بھلا جیسا بھی تھا رکھا گیا تھا
تُمہی کہہ دو ہمارا نام کیا رکھا گیا تھا
تُم اپنے آپ میں تھے برہمن، شُودر تھے ہم ہی
جبھی تو بِیچ میں یہ فاصلہ رکھا گیا تھا مزید پڑھیں […]
بُرا تھا یا بھلا جیسا بھی تھا رکھا گیا تھا
تُمہی کہہ دو ہمارا نام کیا رکھا گیا تھا
تُم اپنے آپ میں تھے برہمن، شُودر تھے ہم ہی
جبھی تو بِیچ میں یہ فاصلہ رکھا گیا تھا مزید پڑھیں […]
بلوچ قوم کے بچّے ہُوئے ہیں گم ایسے
ہر ایک شخص یہاں ہائے سٹپٹا کے رہا
بچا کے دِل کی زمِیں کو رکھا تھا میں نے رشِیدؔ
غموں کا ابر مِرے آسماں پہ چھا کے رہا
رشِید حسرتؔ
ناز اُس کے اُٹھاتا ہُوں رُلاتا بھی مُجھے ہے
زُلفوں میں سُلاتا بھی، جگاتا بھی مُجھے ہے
آتا ہے بہُت اُس پہ مُجھے غُصّہ بھی لیکِن
پیار اُس پہ کبھی ٹُوٹ کے آتا بھی مُجھے ہے مزید پڑھیں […]
ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے
ہمارا عِشق بھی جنّت مِثال ہو جائے
سُنا ہے تُم کو سلِیقہ ہے زخم بھرنے کا
ہمارے گھاؤ کا بھی اِندمال ہو جائے
ذرا سی اُس کے رویّے میں گر کمی دیکھیں مزید پڑھیں […]
جانتا کوئی نہِیں آج اصُولوں کی زباں
کاش آ جائے ہمیں بولنا پُھولوں کی زباں
موسمِ گُل ہے کِھلے آپ کی خُوشبُو کے گُلاب
بولنا آ کے ذرا پِھر سے وہ جُھولوں کی زباں
یہ رویّہ بھی ہمیں شہر کے لوگو سے مِلا مزید پڑھیں […]
بنے پِھرتے ہیں وہ فنکار لوگو
ازل سے جو رہے مکّار، لوگو
کوئی کم ظرف دِکھلائے حقِیقت
ہر اِک جا، ہر گھڑی ہر بار لوگو
ہُوئے ہیں اہلِ کُوفہ کے مُقلّد
ہمارے آج کل کے یار لوگو
بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی
تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی
حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری
گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی
مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا
کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی
مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھا
بتا کر ہی تُمہارے شہر آنا چاہِیے تھا
مِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تُمہاری
تُمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہِیے تھا
مِرے بچّے گئے ہیں کل سے پِکنِک کا بتا کر
نہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہِیے تھا