انسانوں کے اِس بستی میں

insano

انسانوں کے اِس بستی میں
انسانوں کے تلاش میں ہوں
بےحسی کے ردا اوڑھے۔۔۔ نیم وا حجابوں سے
آنكھوں کے سرخی مائل
گہرے پانیوں میں اجڑے ہوئے جزیرے
ڈھلتے سورج کی لڑکھڑاتی ہوئی کرنوں کی
آخری رسومات میں گھنگھور گھٹاؤں کا چغہ پہنے

جب بھی تم سامنے آتے ہو

urdu-poetry

جب بھی تم سامنے آتے ہو
اب کی ساری خزاں زدہ گھڑیاں
گزری بہاروں میں ڈھل سی جاتی ہیں
وقت کی آغوش میں سوئی ہوئی وفائیں
پِھر سے مچل سی جاتی ہیں
اک بہکا سا خیال دریچوں پہ دستک دیئے بغیر
دِل کے آنگن میں آ جاتا ہے
پِھر سے دبی ہوئی سسکیوں کو بہلایا جاتا ہے
اس وحشت زدا آنگن کے اک کونے میں
جذبوں کے طاق پر پڑا
گل کیا ہوا تیری یادوں کا چراغ
پِھر آتش عشق سے جلنے لگتا ہے
پِھر میرا تصور تیرے تصور میں ڈھلنے لگتا ہے
جب بھی تم سامنے آتے ہو
تیرے پر لطف لہجے کی مسیحائی سے
شہر خموشاں میں دفن میرے جوان جذبات کو
پِھر سے حیات نو عطا ہوتی ہے
پِھر اک نئی محبت کی ابتدا ہوتی ہے

اِس سے پہلے كہ سال کی آخری شام تمام ہو

اِس سے پہلے كہ سال کی آخری شام تمام ہو
اور تو بھی مصروف نو ایام ہو
اِس سے پہلے کہ میں زیست گروی رکھ دوں
کسی اور کے پاس
اِس سے پہلے کہ تیرے ھاتھوں کا لمس
تیرے لبوں کی مسیحائی اور تیرے لہجے کی پزیرائی
ہار دوں کہیں اور
مانا دوست کہ ہجر تو اب مقدر ٹھہرا
مگر اِس سے پہلے کہ ہَم بچھڑ جائیں
مزید پڑھیں […]