عشق نے ڈال دی اسکی طبعیت میں نرمی

عشق نے ڈال دی اسکی طبعیت میں نرمی
ورنہ وہ شخص تو کبھی رویا نہ تھا
انسانوں کے اِس بستی میں
انسانوں کے تلاش میں ہوں
بےحسی کے ردا اوڑھے۔۔۔ نیم وا حجابوں سے
آنكھوں کے سرخی مائل
گہرے پانیوں میں اجڑے ہوئے جزیرے
ڈھلتے سورج کی لڑکھڑاتی ہوئی کرنوں کی
آخری رسومات میں گھنگھور گھٹاؤں کا چغہ پہنے
در چھوڑ کے سوئے دار نکلی
روح مری قفس سے بیزار نکلی
اک اک سانس بیچ رہی ہے
زندگی موت کی خریدار نکلی
جب بھی تم سامنے آتے ہو
اب کی ساری خزاں زدہ گھڑیاں
گزری بہاروں میں ڈھل سی جاتی ہیں
وقت کی آغوش میں سوئی ہوئی وفائیں
پِھر سے مچل سی جاتی ہیں
اک بہکا سا خیال دریچوں پہ دستک دیئے بغیر
دِل کے آنگن میں آ جاتا ہے
پِھر سے دبی ہوئی سسکیوں کو بہلایا جاتا ہے
اس وحشت زدا آنگن کے اک کونے میں
جذبوں کے طاق پر پڑا
گل کیا ہوا تیری یادوں کا چراغ
پِھر آتش عشق سے جلنے لگتا ہے
پِھر میرا تصور تیرے تصور میں ڈھلنے لگتا ہے
جب بھی تم سامنے آتے ہو
تیرے پر لطف لہجے کی مسیحائی سے
شہر خموشاں میں دفن میرے جوان جذبات کو
پِھر سے حیات نو عطا ہوتی ہے
پِھر اک نئی محبت کی ابتدا ہوتی ہے
سنو کچھ کہنا چاہتا ہوں
تمھارے دِل میں رہنا چاہتا ہوں
تمہاری آنكھوں کا دیوانہ ہوں
شمع حسن کا پروانہ ہوں
اِس سے پہلے كہ سال کی آخری شام تمام ہو
اور تو بھی مصروف نو ایام ہو
اِس سے پہلے کہ میں زیست گروی رکھ دوں
کسی اور کے پاس
اِس سے پہلے کہ تیرے ھاتھوں کا لمس
تیرے لبوں کی مسیحائی اور تیرے لہجے کی پزیرائی
ہار دوں کہیں اور
مانا دوست کہ ہجر تو اب مقدر ٹھہرا
مگر اِس سے پہلے کہ ہَم بچھڑ جائیں
مزید پڑھیں […]
جیا دھڑکے پر جیا نہ جائے
الزام محبت کو دیا نہ جائے
کام بھولے سجدے قضا ہوئے
پیار کر کے کچھ کیا نہ جائے
تیرا خیال بے خیال کر دے
مزید پڑھیں […]
سفر طویل تھا میرا رافیق کوئی نہ تھا
میرا یہ دکھ کے دکھوں میں شریک کوئی نہ تھا
حسن نثار
اس کی یاد کو بنا لیتا ہوں ہمسفر اپنا
میرے ساتھ جب کوئی ہمسفر نہیں ہوتا
انجم عزیز عباس