دیوانوں کو پِھر سے ہے امید وفا کی

دیوانوں کو پِھر سے ہے امید وفا کی
دیوانوں نے پِھر ریت پر تحریر لکھی ہے
دیوانوں کو پِھر سے ہے امید وفا کی
دیوانوں نے پِھر ریت پر تحریر لکھی ہے
چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں
دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
غم ہی غم ہیں تری امید میں کیا رکھا ہے
عید آیا کرے اب عید میں کیا رکھا ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
بڑے یقین سے دیکھی تھی ہَم نے صبح امید
قریب پہنچے تو واصف وہ روشنی نہ رہی
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں