ہم لوگ تو ظُلمت میں جِینے کے بھی عادی ہیں

ہم لوگ تو ظُلمت میں جِینے کے بھی عادی ہیں
اس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیں
اِک یاد پہ آہوں کا طُوفاں اُمڈتا ہوا آتا ہے
اِک ذکر پہ اب دل کو تھاما نہیں جاتا ہے
ہم لوگ تو ظُلمت میں جِینے کے بھی عادی ہیں
اس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیں
اِک یاد پہ آہوں کا طُوفاں اُمڈتا ہوا آتا ہے
اِک ذکر پہ اب دل کو تھاما نہیں جاتا ہے
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے
کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے
تم کیوں بنے تھے دِل کا سہارا ، جواب دو
اب کہاں ہے وہ پیار تمہارا ، جواب دو
کس کو تھا ناز اپنی اداؤں پہ ہر گھڑی
کس نے کیا وفا سے کنارہ ، جواب دو
نظر ملا کے بھول گئے ہو
اپنا بنا کے بھول گئے ہو
میری بےبسی بھی تو دیکھو
گھر جلا کے بھول گئے ہو
قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثار راہ وفا کر چکے ہیں ہم
کچھ امتحان دست جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم
سراغِ منزل لیے راہِ بے نشاں کی تلاش میں
کارواں بھٹک گیا میرِ کارواں کی تلاش میں
امیرِ شہر ہے یہاں میمن ہے کوئی مہر ہے
بے نام ہوئے لوگ فخرو گمان کی تلاش میں
صباء چلی زلف کھلی خوشبو پھیلی فضاؤں میں
ہوئی صبح کلی چٹخی کھلے گلاب ہواؤں میں
تیری نظر سے میری نظر تک حَسِین سفر گزر گیا
حیا آئی جھکی پلکیں شرام آئی نگاہوں میں
کبھی یوں بھی ہَم نے کاغذ پہ اتاری غزلیں
قلم رو دیا تو ہنس پڑی ساری غزلیں
ہَم نے اپنے ہنر کو بہت دیر تک آزمایا
جیتے تم ہی آخر اور ہاری غزلیں