صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئی آنکھیں

صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئی آنکھیں
دکھ کہتا ہے اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں
یہ کیا كہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لیے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں
صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئی آنکھیں
دکھ کہتا ہے اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں
یہ کیا كہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لیے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں
یہ نظر منتظر ہے تیری آج بھی
دِل کسی اور سے آشنا ہی نہیں
میں کیوں رستہ دوں کسی اور کو
جب کوئی تیرے جیسا بنا ہی نہیں
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو
گزر گئے ہیں بہت دن رفاقت شب میں
اک عمر ہو گئی چہرہ وہ چاند سا دیکھے
تیرے سوا بھی کئی رنگ خوش نظر تھے مگر
جو تجھ کو دیکھ چکا ہو وہ اور کیا دیکھے
پاس راہ کر جدائی کی تجھ سے
دور ہو کر تجھے تلاش کیا
میں نے تیرا نشان گم کر كے
اپنے اندر تجھے تلاش کیا
یہ آنکھ جب ذرا نم ہو اور بارش کا موسم ہو
مجھے لاحق تیرا غم ہو اور بارش کا موسم ہو
اداسی جم سی جاتی ہے کسی برف کی مانند
خیالوں میں اگر تم ہو اور بارش کا موسم ہو
یہ ضبط چھوت گیا تو تمہاری یاد آئی
میں تھک كے ٹوٹ گیا تو تمہاری یاد آئی
تمھارے بعد نہ تھا کوئی میرا دِل كے سوا
یہ دِل بھی روٹھ گیا تو تمہاری یاد آئی
نہ تو زمیں كے لیے ہے نہ آسمان كے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں كے لیے
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں كے لیے