وہ جذبوں کی تجارت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
وہ جذبوں کی تجارت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
اسے ہنسنے کی عادت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
مجھے وہ دیکھ کر اکثر ، نگاہیں پھیر لیتا تھا
یہ دَر پردہ حقارت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
وہ جذبوں کی تجارت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
اسے ہنسنے کی عادت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
مجھے وہ دیکھ کر اکثر ، نگاہیں پھیر لیتا تھا
یہ دَر پردہ حقارت تھی ، یہ دِل کچھ اور سمجھا تھا
عجب دیوار اک دیکھی ہے میں نے آج رستے میں
نہ کچھ دیوار كے آگے نہ کچھ دیوار كے پیچھے
بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوار گریہ ھے ترے اشعار کے پیچھے
اسے میں نے دیکھا
تو سوچا ، کہہ اب چاند نے
اپنے سورج سے
لو مانگنا چھوڑ دی ہے
تجھ سے ملنے کو کبھی ہم جو مچل جاتے ہیں
تو خیالوں میں بہت دور نکل جاتے ہیں
گر وفاؤں میں صداقت بھی ہو شدت بھی ہو
پھر تو احساس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
اس کی آنکھوں کے نشے میں ہم جب سے ڈوبے
لڑکھڑاتے ہیں قدم اور سنبھل جاتے ہیں
اس سے جدائی کا جب بھی خیال آتا ہے
اشک رخسار پہ آنکھوں سے پھسل جاتے ہیں
پیار میں ایک ہی موسم ہے بہاروں کا
لوگ موسم کی طرح کیسے بدل جاتے ہیں
ہر شام تیری یار میں جلتا ہوا دیکھوں
کب تک دِل بیتاب مچلتا ہوا دیکھوں
آنچل کی طرح تن سے لپٹ جاؤں تیرے
اور خود کو تیری ذات میں دہلتا ہوا دیکھوں
گر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
اگر لہو ہے بدن میں تو دِل ہے بے وسواس
جسے ملا یہ متاع گراں بہا اِس کو
نا سیم و زر سے محبت ہے نہ غم افلاس
تو غبار سفر میں خزاں کی صدا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
میں نے ساری خدائی میں تجھ کو چنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
بکھر رہے ہیں میری زندگی کے تمام ورق
نہ جانے کب کوئ آندھی اڑا کر لے جاۓ
میں کب تلک دوسروں کے دکھ سمبھال کر رکھوں
جس جس کے ہیں وہ نشانی بتا کر لے جاۓ